Saturday, December 12, 2015

ڈھونڈھیے چراغ رخ زیبا لےکر



ڈھونڈھیے چراغ رخ زیبا لےکر
کل صبح سے میری بائیں آنکھ رہ رہ کر پھڑک رہی تھی۔ میں حیران ہوں کہ موضع مٹھن پور میں کیا آفت آنے والی ہے پر مجھے زیادہ فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ میں مٹھن پور کا اکلوتا رہائشی نہیں۔ مٹھن پور میاں مٹھو کے مبارک نام پہ آباد ہوا تھا۔میاں مٹھو کا کسی دوسرے کے میاں یا کسی بھی دوسرے میاں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے محکمہ خودستائشی یعنی کہ اطلاعات و ابلاغیات میں نہایت اعلٰی مقام پر فائز تھے۔ اس اعلی مقام میں ان کے ذاتی لیاقت سے زیادہ انکے دفتر کے محل وقوع کا زیادہ دخل تھا کیونکہ ان کا کام دوسری منزل پہ واقع بڑے صاحب کے دفتر تک عوام کی رسائی ناممکن بنانا تھا۔جس طرح کلی چٹخ کر پھول بن جاتی ہے اسی طرح مٹھو میاں قاصد کے عہدہ سے ترقی کرتے کرتے اسی دفتر میں آگئے جہاں کبھی وہ دربان ہوا کرتے تھے۔ اس ترقی کی داستان میں انکے اسم بامسٰی ہونے کے ساتھ ساتھ انکی زوجہ کا کردار بھی فعال رہا۔ موضع مٹھن پور ضلع ڈیرہ غازی خان کی متعدد بستیوں میں ایک غیرنمایاں اور دورافتادہ گاؤں ہے ۔ نام سے ویسے بھی  کونسا فرق پڑنا ہے چاہے رحیم  یار خان ہو، راجن پور، ہری پور یا منٹگمری ۔ سب مذاھب  کے ماننے والوں نے دھرتی ماں کےساتھ یکساں برتاؤ کیا ہے۔گاؤں کانقشہ آبادی مملکت خداداد کے سن آزادی کی یادگار ہے۔پچھلے سال ہمارے سائیں نے جب یہاں کادورہ کیا تھا تو انہوں نے حصوصی ہدایت کی تھی خبردار وطن کے تاریخی ورثہ کی جی جان سے حفاظت کی جائے اور گاؤں میں کسی بھی ناگوار تبدیلی جیسے کہ اسپتال، سکول اور سڑک وغیرہ سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ چنانچہ ماشاءاللہ اب 2015 میں بھی ہمارا مٹھن پور ایسا ہی ہے جیسا 14 اگست1947 کے دن تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون کی گھنٹی بیزار صاحب کی طبیعت پہ بہت ناگوار گذرتی ہے لیکن جب کئی سیکنڈ کاانتظار بھی فون کرنے والے کےلئے ناگوارخاطر نہ ہوا تو بیزار صاحب کو فون اٹھانا ہی پڑا۔لیکن بات کرنے والے نے انکی توجہ فورا منعطف کرلی۔ "آپکو یقین ہے کہ یہ وہی ہے؟ہماری مطلوبہ شخصیت"۔"جناب سوفیصد" دوسری جانب سےآوازآئی۔"ٹھیک ہے میں نکلتا ہوں اور دوران سفر آپ سے رابطہ میں رہونگا" کہہ کر بیزار صاحب نےفون رکھ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیزار صاحب کی بیزارگی کو دوآتشہ کرنےوالی ان کی استقبالی ٹولی تھی جو حسب روایت ایک قابل رشک توند کے مالک حوالدار سوتے خان اور نتھولال جیسی مونچ والے سپاہی جارا خان  کی جوڑی پر مشتمل تھی جو بیزار صاحب کی آمد پر ان سے زیادہ بیزار دکھائی دےرہےتھے۔ ساتھ میں میڈیا کےنامی گرامی آتش صاحب کی گھومتی ہوئی آنکھیں ان کو مزیدمضطرب کیےجارہی تھیں جوحسب روایت گمنام اطلاع پر کسی خبرکوسونگھتےہوئےوہاں آپہنچے تھے۔"کیا بریفنگ کا کوئی انتظام ہے؟"انہوں نے پوچھا تو حوالدار صاحب نے دیوار پر ٹنگے ہوئے نقشہ پر اپنی چھڑی جسے ڈنڈا کہنا زیادہ مناسب ہوگا، رکھتےہوئےکہا"جیساکہ ہم جانتےہیں کہ مجرم""ہمارےمطلوبہ شخص پرابھی تک کچھ بھی ثابت نہیں ہوا لہٰذا انہیں مجرم نہیں بلکہ ملزم کہنا زیادہ مناسب ہوگا"آتش صاحب نےمداخلت کی"سرجی یہ پولیس نہیں بلکہ آپ جیسے میڈیا خصوصا سوشل میڈیا کے جغادری مجرم، بےغیرت، غدار وغیرہ کےالقاب عطافرمانے کامبارک کام کرتے ہیں"حوالدارصاحب نےجوابی چوٹ کی۔"وعظ فرمانے کی بجائےسبجیکٹ کے بارے میں تفصیلی بات کیجئے" بیزارصاحب نے اپنےبیزارکن لہجےمیں کہااورکوئی جواب نہ پاکرکہا"میرامطلب ہے ملزم"۔حوالدارنے دوبارہ سلسلہ کلام جوڑا"ملزم گذشتہ کئی سال سے ایک پرانے مکان میں رہتا آیاہے لیکن بنیادی طورپر یہاں کا باسی نہیں۔ ہوسکتاہےکہ سرحدپارسےاسکا تعلق ہو۔ہمارابندہ اس کی چوکس نگرانی کررہاہے اور اطلاع کےمطابق اب بھی وہیں موجودہے"۔ "توچلیےپھر دیرکس کا"بیزارصاحب نےاٹھتےہوئےکہاتوباقی لوگ بھی اٹھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک دستک نے مجھےہڑبڑادیا۔ یہ وقت مٹھن پور میں عوام کےاستراحت پذیر ہونے کاہے لہٰذامجھے تشویش ہونے لگی لیکن دروازہ کی خستہ حالت اور اس پر جاری گولہ باری جیسی تیزدستک کے پیش نظر مجھے فورا ہی دروازہ کھولنا پڑا۔ جس کے کھلتے ہی میں نے اپنی چھٹی حس اور نظرآنےوالی مخلوق کودل میں کوسنے دئیے لیکن اب بھاگنے کی کوئی صورت نہ تھی۔بن بلائے مہمان فورا ہی اندردرآئےاورمیرے گردگھیراڈال لیاجیسے میں کوئی عجوبہ ہوں۔"ہوں، لگتا تو وہی ہے" حوالدارصاحب نےاپنےسپاہی کوٹہوکادیا۔مٹھن پور کی روایت کے مطابق سپاہی نےافسراعلٰی کی بات سےسوفیصداتفاق کیا۔"دانتوں کا معائنہ کرنا پڑےگا، بال اوردیگر علامتیں تو میچ کررہی ہیں" گول عینک والےصاحب نے کہاجوحلئیے ان سب کاسرغنہ معلوم ہوتاتھابعد میں انکانام بیزارصاحب معلوم ہوا"لیکن سائیں مجھےبتاؤ یہ سب کیاہورہاہے؟ میراقصورکیاہے؟" میں نےفریادکی جس کےجواب ایک لات تھی جسے مجھےاپنے نصیب اور ماضی کی ان گنت لاتوں کی طرح نظراندازکرناپڑا۔"زیادہ مارنانہیں کیونکہ اسے لوگوں کےسامنے بھی پیش کرناہے جواسکےموجودگی کاانکارکررہےہیں" مسٹربیزارگویا ہوئےاور پھرمیری جانب دیکھتے ہوئے کہا"توتمہیں پتہ بھی نہیں کہ یہ سب کیا ہورہاہے؟اتنے بھولے نہ بنو۔وزیرمملکت کی تقریرکےبعد گذشتہ کئی دنوں سے مسلسل تمہارا ہی ذکر ہورہاہے۔ ہر چینل اور اخبار پریہی بحث چھڑی ہوئی ہے۔خود میں اس پرابتک تین پروگرام کر چکا ہوں اور اب یہ بریکنگ نیوزہمارےچینل پر ایکسکلوزیو سٹوری ہوگی"۔یہ آتش صاحب تھے۔ پتہ نہیں کیا کہےجارہےہیں مجھےاخباراور وزیر کےعلاوہ کسی بات کی سمجھ نہیں آئی۔شاید یہ گذشتہ سیلاب کی بات کررہے ہیں کیونکہ تب ہمیں اپنےوزیرمملکت کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔اچانک جاراپہلوان نے میرےجبڑے پرزورڈالا تو میں کراہنے پر مجبورہوگیااور میرے منہ کھلنے سے اچانک سب کے چہروں پہ رونق آگئی۔ "یوریکایوریکا۔آج کادن تاریخ میں ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔آج ہم دنیا کودکھادیں گے کہ ایک عام آدمی واقعی وجود رکھتا ہے۔ اگرچہ اس کی تلاش میں آپکوصحرا،سیلاب اور غربت کی تکون جہاں بھوک ڈیرےڈالی ہوئی ہووہاں جاناپڑےگا"۔آتش صاحب پھولےنہیں سمارہےتھے۔ بیزارصاحب کی افسردگی بھی ہمارےاچھےمستقبل کی امیدوں کی مانند ہواچکی تھی۔"اچھا یہ تو بتاؤ کیا تمہیں واقعی صابن، شیمپو،ٹوتھ پیسٹ اورخوردنی تیل کی ضرورت نہیں پڑتی؟" شاید یہ تفتیش کاآغازتھا۔"سائیں صابن، شیمپو،ٹوتھ پیسٹ کو پانی  کی ضرورت پڑتی ہے ہمارے پاس پینے کو پانی نہیں نہانے کا تو صرف تصور کرتے ہیں، سوکھی روٹی کے ساتھ پیاز کھالیتے ہیں۔ تیل کہاں سے لائیں؟""گویااس طرح ٹیکس سے بچاکرتم وطن کونقصان پہنچا رہے ہو" انہوں نے سگریٹ سلگاتے ہوئے ایک اور سوال داغا"سریہ چیز توصحت کےلئےنقصان دہ ہوتی ہے"۔حوالدار نےاعتراض کیا"یارتم وعظ بہت کرتے ہو۔جوچیزوزیر صحت کےلئے فائدہ مندہووہ  نہیں تو صحت کےلئے کیسےنقصان دہ ہوسکتی ہے"۔لیکن ڈبیہ کےاوپردرج ہے کہ یہ پھیپھڑوں کےسرطان کاباعث بن سکتی ہے"فکر نہ کرو ہم نے سرطان کاعلاج کرنے کے کئی نئے شفاخانوں کوچندہ دینے کی اپیل کی ہے" بیزارصاحب اپنےاصل روپ میں واپس لوٹ رہے تھے"سرجی لیکن چندہ کتنادیا ہے؟" یار چندہ تو میں نے کبھی چنداکو بھی نہیں دیاجوبنارہےہیں انکا نہیں پتہ کہ انہوں نے اپنی جیب خاص سے کتنادیاہے۔ہماراکام توصرف عوام کو پیغام دینا ہے۔چندہ کتناہوا، قرضہ کتنااترا؟ یہ تو بڑے لوگوں کے کام ہیں۔ اور تمہیں کیاتکلیف ہے؟تم توساڈےنال ہونا"۔پھرمیری طرف دیکھ کر غرائے"تم نے ابھی تک زبان نہیں کھولی۔کیوں نہیں دیتے ٹیکس؟""سائیں وطن کوجب بھی دیا ہے ہم لوگوں نے ہی دیاہے۔کیا قربانی، ٹیکس، صبرکاامتحان ، قرض اتارنے سے لےکہ سیلاب زدگان،زلزلہ زدگان،آئی ڈی پیز کی بحالی کےلئے موجود "وزیراعظم کےخصوصی فنڈ" میں چندہ، انتخابات اورریفرنڈم میں جبرا ڈالےگئے ووٹ، انقلاب اورتبدیلی کےنام پہ منعقد دھرنا، ماچس کی ڈبیا پہ سیلز ٹیکس،نہ بننےوالےڈیموں کاڈیویلپمنٹ ٹیکس، سائیں ہمارے پاس تو اب دینے کوصرف کھال اور یایہ جان ناتواں بچی ہیں جو آپ کے تو کسی کام کی نہیں۔ اور گستاخی معاف یہ باتوں پہ اور آکسیجن پہ ٹیکس لگانے والےخودکتناٹیکس دیتے ہیں؟ پچھلےسال کےذاتی گوشوارے تو ذرا ہمیں دکھائیں"۔مجھے بھی بولنا پڑا کیونکہ مسٹرجاراکی تیزنگاہیں مجھےگھوررہی تھیں اور مزیدتپھڑکھانےکی تاب نہیں تھی۔"سرجی یہ بندہ کمیونسٹ اورپڑوسی ملک کاایجنٹ لگتاہے۔آپ میرےحوالےکردیں یہ سب کچھ فرفربک دےگا"۔انہوں نےاپنےحاکم بالا سے عرض کی۔"سائیں یہاں تورواج یہی ہے کہ سارے مہاجر،پنجابی،پٹھان،بلوچی،سندھی ہیں پاکستانی کوئی نہیں۔پہلےبنگالیوں کی باری تھی اب توغدار،ملک دشمن اورپرائےایجنٹ بکثرت ہیں۔اپنےایجنٹ توصرف اسٹیٹ ایجنٹ اورکمیشن ایجنٹ ہیں۔عام آدمی توہرجگہ ہے لیکن صرف قربانی اورقومی فریضہ کی ادائیگی کےوقت نظرآتاہے۔ باقی دنوں میں وہ پیرسائیں، منسٹرصاحب،سپیکرصاحب،صاحبان کےبندوں کےجھنڈ میں دکھائی نہیں دیتا۔اورآخری بات کہ اب ہمیں آٹےدال اور سبزی کی قیمت بڑھنے سےبھی فرق نہیں پڑتابلکہ کسی بھی حکومت اورکسی بات سے بھی نہیں پڑتا۔اب فرق پڑےگاتوآپ صاحبان کو پڑےگااور آپ کےبندوں کوپڑےگا۔کیونکہ اب کےآپ کی باری ہے۔خدا کےبندے تواب خداکےپاس چلے۔"
خدا کےبندے توہیں ہزاروں بنوں میں پھرتےہیں مارےمارے

میں اس کابندہ بنوںگا جس کو، خداکےبندوں سےپیار ہوگا

No comments:

Post a Comment