Sunday, November 29, 2015

اہتمام خر نوازی

مجبوری ہے بھائی۔ اٹک پار جان کا خطرہ ہے۔


اہتمام خر نوازی
خبریں  دراصل دو ہیں اور کسی گھریلو معاملہ یعنی کہ "قطعی ذاتی معاملہ" کی طرح گھسی پھٹی نہیں بلکہ تاذہ بہ تازہ وارد بہ در دہن اسپ راوی ہیں۔ پہلی خبریہ ہے کہ ماشااللہ برادرکلاں (صوبہ پنجاب) نے مملکتہائے چین و ترکی کے ساتھ 150 سے ذائد معاہدوں پر دستخط کئے ہیں جن میں توانائی، انفراسٹرکچر، صنعت، کان کنی اور دیگر کئی شعبے ہیں۔
دوسری خبر پرانی ہے کہ کل  برادر خورد (صوبہ پختونخوا) کے وزیراعلٰی سے چینی سرمایہکاروں کا ایک وفد ملا جس نے یہاں پر گدھوں کی افزائش کے فارم کھولنے کےسلسلہ میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔ اب ان کو کون بتلائے کہ ہمارے یہاں تو کب سے یہ فارم بہت سے قومی اداروں کے نام سے قائم ہیں اور اب تو ماشااللہ ہمارے گد ھوں  کی تیسری نسل برآمد و  دوبارہ درآمد ہو کر اکھاڑے میں اترنے کےلئے تیار ہے بلکہ اتر بھی چکی۔  استغفراللہ یہ میں کہہ بیٹھا کہ فی زمانہ عزت سادات کی تو کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ ملک ہائے مااست میں عزت دار کہلانے والے افراد صرف گنےچنےاداروں کے ہیں۔ عام آدمی، اسلامی شعائرواکابر اور قومی رہنماؤں کو آپ جو مرضی کہہ ڈالیں لیکن خبردار آپ کسی بڑے کے بارے میں کچھ کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ قوانین  عوام کےلئے اور ان پر عملدرآمد نافذ کرنے والوں کی مرضی پر موقوف ہے۔سو احتیاط لازم ہے
مرزا نوبت آج کل فارغ ہیں اس معاملہ پر معترض ہیں  "یعنی کہ نوبت اب یہاں تک پہنچی کہ ہمارے دوست اب ہمیں گدھے پالنے کا مشورہ دے رہےہیں "تجویز اتنی بری تو نہیں کہ اسکا برا منایا جائے۔  پالنے کے معاملہ میں باوجود اس حقیقت کے کہ ہماری جمہوریت ابھی تک پالنے میں ہے لیکن ہمارے مبینہ راہنما کتے پالتے ہیں، جاگیردار ڈاکو اور خوانین بدمعاش پالتے ہیں، حکومت اپنے آپ کو پالنے کے لئے  قرض لیتی  ہے اورکارپوریشن پال کے بیچتی ہے جبکہ عوام اس قرض کا روگ پالتے ہیں۔ اس سے بہتر کوئی روزگار نہیں اور چونکہ دوستوں کی نظر میں ہم لوگ کسی اور کام جوگے نہیں کہ "پڑھا لکھا پنجاب "تحریک تو صرف اٹک پار تک اپنا چمتکار دکھا سکی اور ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا کہ شاہراہ ترقی یعنی کہ پاک چین اقتصادی راہ داری میں ہمیں حصہ ملے تو ہمارے بھا ئیوں نے ابھی سے اس راہ پر ہماری استطاعت کے مطابق ہماری سواری کا بندوبست کرنے پر غوروخوض شروع کر دیا اور ہمیں مشورہ دیا کہ بھاڑ جونکنے سے  تو بہتر یہی کہ باہمی فلاح کا یہ کام کر لیا جائے  بلکہ اپنے بندہ  مزدور جوساعت بہ ساعت رہنمائے وقت کے آرام میں  اپنی مزدوری کی عدم ادائیگی کا غلغلہ بلند کر کے  خلل انداز ہوتے ہیں ، ان کو اس کام سے لگادیا جائے تاکہ ان کی سمع خراشی سے محفوظ رہا جاسکے۔ ہماری قوم تو تقریبا ہر معاملہ میں درآمد شدہ مال پر یقین رکھتی ہے خواہ وہ بیوی ہو، وزیراعظم ہو یاہسپتالوں کے منتظم اعلٰی  ہمارے مزاج کو تو امپورٹڈ کا لیبل بھاتا ہے تو کیا ایسا ہوگا کہ ہم برآمد کےلئے تو اپنےدیسی گدھے پالیں اور سواری کے لئے امریکی گدھے؟شاید کہ اس سے امریکیوں سے ہمارے تعلق دیرینہ میں گرم جوشی آئے .
                ایک اور وجہ شایداس کی یہ بھی  ہو کہ ان کو کسی نے "خر گے تبرگے" کا تذکرہ کیا ہو " اے اللہ بس ایک گدھا اور ایک کلہاڑا دے دے باقی میں جانوں اور میرا کام"گدھے توہمارے ہاں دو ٹانگوں والے بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے بکثرت دھرنوں، مظاہروں، ہنگاموں اور ٹریفک حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ پرائی جنگ کا ایندھن بن جاتےہیں  جبکہ" تعلیم آفتہ" کو دساور ملک بدر کیا جاتا ہے عمومی بہانہ تعلیم یا روزگار کا ہوتا ہے۔ لیکن یہ حضرات گھوم پھر کر دوبارہ یہاں وارد ہو جاتے ہیں سچ ہے کہ " جتھے دی کھوتی  اتے آن کھلوتی" ۔
یا شاید ہمارے دوستوں کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ہماری قوم گدھوں کی تربیت اور ان کے انتخاب میں مہارت رکھتی ہے۔ لیکن  تعلیم و تربیت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ " کعبہ کی بزرگی میں کسی شک کی گنجائش نہیں لیکن گدھے کو طوافوں سے حاجی نہیں بنایا جا سکتا"
 یہ واقعہ  برطانوی پارلیمان کی تاریخ میں رقم ہے کہ ایک رکن نے کہا " اس ایوان کے آدھے ارکان گدھے ہیں" جب اس جملہ پر نقطہ اعتراض اٹھایا  گیا تو وہی حضرت گویا ہوئے " میں اپنے بیان  میں ترمیم کرنا چاہوں گا۔ اس ایوان کے آدھے اراکین یقینا گدھے نہیں ہیں"۔لوگ تویہ بھی  کہتے ہیں کہ گدھا جس راستے پر ایک دفعہ چلا جائے تو یہ اس کی یادداشت کےلیے کافی ہے جیسا ہمارے ہاں ایک دفعہ کا انتخا ب اگلی دفعہ کےلیے پارلیمینٹ جانےکی گارنٹی ہے ۔
خرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے            دیکھنا اب زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

No comments:

Post a Comment