Sunday, November 29, 2015

مونچھ تیرے لیئے مظہر الفت ہی سہی

مونچھیں ہوں تو نتھو لال جیسی ورنہ نہ ہوں
مونچھ تیرے لیئے مظہر الفت ہی سہی

وینزویلا کے صدر کا بیان آیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں "اگر اپنا وعدہ پورا نہ کر سکا تو مونچھیں کٹوا دوں گا تا کہ عوام کو پتہ چل سکے کہ صدر اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہا ہے"۔     
ماشااللہ کیا بات کی ہے اگر صدر صاحب ہمارے وطن میں ہوتے اور وطن عزیز اپنی موجودہ ڈگر پر چل رہا ہو تو ذرا تصور کیجیے کہ آنے والے انتخابات کے دنوں میں ہمارے موجودہ برسر اقتدار راہنما اپنی ہیئت کذائی میں کسی بدھ بھکشو سے مماثلت رکھتے۔ کہ نہ تو منہ پہ مونچھ اور اچھے خاصے با شرع نورانی داڑھی والے بھی ٹنڈ منڈ دکھائی دیں۔یا حسب روایت فرمایا جائے گا کہ وہ سب تو صرف ایک وعدہ تھا اور وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو سکے۔مونچھ تیرے لیئے مظہر الفت ہی سہی     تجھ کو اس نشانی رنگیں سے عقیدت ہی سہی    میرے محبوب کچھ اور مانگا کر مجھ سے  اگر یہی شرط رہی وصل لیلٰی تو   ہم باز آئے محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا  وغیرہ وغیرہ۔
 دعوے تو  انتخابی عمل کا حصہ ہیں اور بقول کسے  بڑھکیں، جھوٹے وعدے، اپنی فرشتہ صفتی اور مخالف کا مجسم شیطان ہونے کا دعوہ اور بہت ساری انہونیوں کے ثبوت ، بند فائلوں، اور خفیہ سازشوں کے اسرار کا ذکر یہ سب تو جمہوریت کا حسن ہے۔اگر آپ کی جمہوریت اتنی ہی بے ڈھنگی، بھدی، اور غیر پائیدار ہے کہ جھوٹ کی لاٹھی کے بغیر کھڑی بھی نہ ہو سکے تو اس جمہوریت کے کارٹون کا ہماری قوم اور ہمارے وطن کا کیا فائدہ؟
جب ہم کبھی سفید عمامہ جبہ اور کتاب میں تو کبھی ڈنڈے میں اپنی فلاح تلاش کرتے ہیں  ہمیں کہا جاتا ہے لہ یہ بڑی  بڑی عمارتیں عوام کی ہیں اور جب سلطانی جمہور کا زمانہ آیئگا تو ان میں علم کے متلاشی اپنی علم کی پیاس بجھایا کریں گے۔ سڑکوں پہ گھوں گھوں کرتے سائرن صرف ایمبولینسوں کے ہوں گے ۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیئں گےاور خلق خدا راج کرے گی۔لیکن یہ سب 35 پنکچروں کی تشریح کی طرح سیاسی بیان قرار پائے گا۔ ایک اور انتخاب آئےگا اور پھر وہی دشت اور مجنوں کا چاک گریباں ہوگا۔

پچھلے زمانوں کے مقابلہ میں ہمارے یہاں جھوٹ اور وہ بھی دھڑلے سے بلا جھجک بولنے کا رجحان اور تناسب بہت زیادہ بڑھ رہا ہے۔ کسی بندے سے یہ پوچھا گیا کہ اگر سارے سچے سفید براق اور سارے جھوٹے سیاہ  ہو جائیں تو آپ کا رنگ کیا ہوگا؟ انہوں نے بلا توقف جواب دیا "دھاری دار"۔ لیکن جناب اب تو بش ڈاکٹرائین کے بعد اس دو رنگی کی بھی گنجائش نہیں رہی کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن کے ساتھ۔ورنہ آپ کو پتھر کے دور میں بھیج دیا جائیےگا اگر آج آپ کو اس طرح کی کال آدھی رات کو آئے تو بلا توقف فرمائیے " آپ کو اس معاملہ میں تکلیف کرنےکی ضرورت بالکل نہیں، یہ ہماری قوم اور ہمارے حکمرانوں کا "ذاتی معاملہ" ہے اور ماشااللہ وہ بڑی تندہی سے اپنے کام کو سرانجام دینے میں لگے ہوئے ہیں"۔ہماری دوراندیش حکومت تو اب اس زمانے کی مروج و معروف  ذرائع نقل و حمل کی افزائش کا بندوبست ہمارے دوست ملک کے سرمایہ کاروں کی مدد سے کر رہی ہے۔ ہم تو صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ ہی ہمار ا 

No comments:

Post a Comment