Thursday, December 22, 2016

Morning at Jhanda

The morning brings happiness, but treading on bumpy roads on chilly cold terrains may make you feel gloomy.



Let's try pictures which speak more clearly without lies and hypocrisy.
Morning at Jhanda.





Saturday, December 12, 2015

ڈھونڈھیے چراغ رخ زیبا لےکر



ڈھونڈھیے چراغ رخ زیبا لےکر
کل صبح سے میری بائیں آنکھ رہ رہ کر پھڑک رہی تھی۔ میں حیران ہوں کہ موضع مٹھن پور میں کیا آفت آنے والی ہے پر مجھے زیادہ فکر کی ضرورت نہیں کیونکہ میں مٹھن پور کا اکلوتا رہائشی نہیں۔ مٹھن پور میاں مٹھو کے مبارک نام پہ آباد ہوا تھا۔میاں مٹھو کا کسی دوسرے کے میاں یا کسی بھی دوسرے میاں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے محکمہ خودستائشی یعنی کہ اطلاعات و ابلاغیات میں نہایت اعلٰی مقام پر فائز تھے۔ اس اعلی مقام میں ان کے ذاتی لیاقت سے زیادہ انکے دفتر کے محل وقوع کا زیادہ دخل تھا کیونکہ ان کا کام دوسری منزل پہ واقع بڑے صاحب کے دفتر تک عوام کی رسائی ناممکن بنانا تھا۔جس طرح کلی چٹخ کر پھول بن جاتی ہے اسی طرح مٹھو میاں قاصد کے عہدہ سے ترقی کرتے کرتے اسی دفتر میں آگئے جہاں کبھی وہ دربان ہوا کرتے تھے۔ اس ترقی کی داستان میں انکے اسم بامسٰی ہونے کے ساتھ ساتھ انکی زوجہ کا کردار بھی فعال رہا۔ موضع مٹھن پور ضلع ڈیرہ غازی خان کی متعدد بستیوں میں ایک غیرنمایاں اور دورافتادہ گاؤں ہے ۔ نام سے ویسے بھی  کونسا فرق پڑنا ہے چاہے رحیم  یار خان ہو، راجن پور، ہری پور یا منٹگمری ۔ سب مذاھب  کے ماننے والوں نے دھرتی ماں کےساتھ یکساں برتاؤ کیا ہے۔گاؤں کانقشہ آبادی مملکت خداداد کے سن آزادی کی یادگار ہے۔پچھلے سال ہمارے سائیں نے جب یہاں کادورہ کیا تھا تو انہوں نے حصوصی ہدایت کی تھی خبردار وطن کے تاریخی ورثہ کی جی جان سے حفاظت کی جائے اور گاؤں میں کسی بھی ناگوار تبدیلی جیسے کہ اسپتال، سکول اور سڑک وغیرہ سے مکمل اجتناب کیا جائے۔ چنانچہ ماشاءاللہ اب 2015 میں بھی ہمارا مٹھن پور ایسا ہی ہے جیسا 14 اگست1947 کے دن تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون کی گھنٹی بیزار صاحب کی طبیعت پہ بہت ناگوار گذرتی ہے لیکن جب کئی سیکنڈ کاانتظار بھی فون کرنے والے کےلئے ناگوارخاطر نہ ہوا تو بیزار صاحب کو فون اٹھانا ہی پڑا۔لیکن بات کرنے والے نے انکی توجہ فورا منعطف کرلی۔ "آپکو یقین ہے کہ یہ وہی ہے؟ہماری مطلوبہ شخصیت"۔"جناب سوفیصد" دوسری جانب سےآوازآئی۔"ٹھیک ہے میں نکلتا ہوں اور دوران سفر آپ سے رابطہ میں رہونگا" کہہ کر بیزار صاحب نےفون رکھ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیزار صاحب کی بیزارگی کو دوآتشہ کرنےوالی ان کی استقبالی ٹولی تھی جو حسب روایت ایک قابل رشک توند کے مالک حوالدار سوتے خان اور نتھولال جیسی مونچ والے سپاہی جارا خان  کی جوڑی پر مشتمل تھی جو بیزار صاحب کی آمد پر ان سے زیادہ بیزار دکھائی دےرہےتھے۔ ساتھ میں میڈیا کےنامی گرامی آتش صاحب کی گھومتی ہوئی آنکھیں ان کو مزیدمضطرب کیےجارہی تھیں جوحسب روایت گمنام اطلاع پر کسی خبرکوسونگھتےہوئےوہاں آپہنچے تھے۔"کیا بریفنگ کا کوئی انتظام ہے؟"انہوں نے پوچھا تو حوالدار صاحب نے دیوار پر ٹنگے ہوئے نقشہ پر اپنی چھڑی جسے ڈنڈا کہنا زیادہ مناسب ہوگا، رکھتےہوئےکہا"جیساکہ ہم جانتےہیں کہ مجرم""ہمارےمطلوبہ شخص پرابھی تک کچھ بھی ثابت نہیں ہوا لہٰذا انہیں مجرم نہیں بلکہ ملزم کہنا زیادہ مناسب ہوگا"آتش صاحب نےمداخلت کی"سرجی یہ پولیس نہیں بلکہ آپ جیسے میڈیا خصوصا سوشل میڈیا کے جغادری مجرم، بےغیرت، غدار وغیرہ کےالقاب عطافرمانے کامبارک کام کرتے ہیں"حوالدارصاحب نےجوابی چوٹ کی۔"وعظ فرمانے کی بجائےسبجیکٹ کے بارے میں تفصیلی بات کیجئے" بیزارصاحب نے اپنےبیزارکن لہجےمیں کہااورکوئی جواب نہ پاکرکہا"میرامطلب ہے ملزم"۔حوالدارنے دوبارہ سلسلہ کلام جوڑا"ملزم گذشتہ کئی سال سے ایک پرانے مکان میں رہتا آیاہے لیکن بنیادی طورپر یہاں کا باسی نہیں۔ ہوسکتاہےکہ سرحدپارسےاسکا تعلق ہو۔ہمارابندہ اس کی چوکس نگرانی کررہاہے اور اطلاع کےمطابق اب بھی وہیں موجودہے"۔ "توچلیےپھر دیرکس کا"بیزارصاحب نےاٹھتےہوئےکہاتوباقی لوگ بھی اٹھ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچانک دستک نے مجھےہڑبڑادیا۔ یہ وقت مٹھن پور میں عوام کےاستراحت پذیر ہونے کاہے لہٰذامجھے تشویش ہونے لگی لیکن دروازہ کی خستہ حالت اور اس پر جاری گولہ باری جیسی تیزدستک کے پیش نظر مجھے فورا ہی دروازہ کھولنا پڑا۔ جس کے کھلتے ہی میں نے اپنی چھٹی حس اور نظرآنےوالی مخلوق کودل میں کوسنے دئیے لیکن اب بھاگنے کی کوئی صورت نہ تھی۔بن بلائے مہمان فورا ہی اندردرآئےاورمیرے گردگھیراڈال لیاجیسے میں کوئی عجوبہ ہوں۔"ہوں، لگتا تو وہی ہے" حوالدارصاحب نےاپنےسپاہی کوٹہوکادیا۔مٹھن پور کی روایت کے مطابق سپاہی نےافسراعلٰی کی بات سےسوفیصداتفاق کیا۔"دانتوں کا معائنہ کرنا پڑےگا، بال اوردیگر علامتیں تو میچ کررہی ہیں" گول عینک والےصاحب نے کہاجوحلئیے ان سب کاسرغنہ معلوم ہوتاتھابعد میں انکانام بیزارصاحب معلوم ہوا"لیکن سائیں مجھےبتاؤ یہ سب کیاہورہاہے؟ میراقصورکیاہے؟" میں نےفریادکی جس کےجواب ایک لات تھی جسے مجھےاپنے نصیب اور ماضی کی ان گنت لاتوں کی طرح نظراندازکرناپڑا۔"زیادہ مارنانہیں کیونکہ اسے لوگوں کےسامنے بھی پیش کرناہے جواسکےموجودگی کاانکارکررہےہیں" مسٹربیزارگویا ہوئےاور پھرمیری جانب دیکھتے ہوئے کہا"توتمہیں پتہ بھی نہیں کہ یہ سب کیا ہورہاہے؟اتنے بھولے نہ بنو۔وزیرمملکت کی تقریرکےبعد گذشتہ کئی دنوں سے مسلسل تمہارا ہی ذکر ہورہاہے۔ ہر چینل اور اخبار پریہی بحث چھڑی ہوئی ہے۔خود میں اس پرابتک تین پروگرام کر چکا ہوں اور اب یہ بریکنگ نیوزہمارےچینل پر ایکسکلوزیو سٹوری ہوگی"۔یہ آتش صاحب تھے۔ پتہ نہیں کیا کہےجارہےہیں مجھےاخباراور وزیر کےعلاوہ کسی بات کی سمجھ نہیں آئی۔شاید یہ گذشتہ سیلاب کی بات کررہے ہیں کیونکہ تب ہمیں اپنےوزیرمملکت کی زیارت نصیب ہوئی تھی۔اچانک جاراپہلوان نے میرےجبڑے پرزورڈالا تو میں کراہنے پر مجبورہوگیااور میرے منہ کھلنے سے اچانک سب کے چہروں پہ رونق آگئی۔ "یوریکایوریکا۔آج کادن تاریخ میں ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔آج ہم دنیا کودکھادیں گے کہ ایک عام آدمی واقعی وجود رکھتا ہے۔ اگرچہ اس کی تلاش میں آپکوصحرا،سیلاب اور غربت کی تکون جہاں بھوک ڈیرےڈالی ہوئی ہووہاں جاناپڑےگا"۔آتش صاحب پھولےنہیں سمارہےتھے۔ بیزارصاحب کی افسردگی بھی ہمارےاچھےمستقبل کی امیدوں کی مانند ہواچکی تھی۔"اچھا یہ تو بتاؤ کیا تمہیں واقعی صابن، شیمپو،ٹوتھ پیسٹ اورخوردنی تیل کی ضرورت نہیں پڑتی؟" شاید یہ تفتیش کاآغازتھا۔"سائیں صابن، شیمپو،ٹوتھ پیسٹ کو پانی  کی ضرورت پڑتی ہے ہمارے پاس پینے کو پانی نہیں نہانے کا تو صرف تصور کرتے ہیں، سوکھی روٹی کے ساتھ پیاز کھالیتے ہیں۔ تیل کہاں سے لائیں؟""گویااس طرح ٹیکس سے بچاکرتم وطن کونقصان پہنچا رہے ہو" انہوں نے سگریٹ سلگاتے ہوئے ایک اور سوال داغا"سریہ چیز توصحت کےلئےنقصان دہ ہوتی ہے"۔حوالدار نےاعتراض کیا"یارتم وعظ بہت کرتے ہو۔جوچیزوزیر صحت کےلئے فائدہ مندہووہ  نہیں تو صحت کےلئے کیسےنقصان دہ ہوسکتی ہے"۔لیکن ڈبیہ کےاوپردرج ہے کہ یہ پھیپھڑوں کےسرطان کاباعث بن سکتی ہے"فکر نہ کرو ہم نے سرطان کاعلاج کرنے کے کئی نئے شفاخانوں کوچندہ دینے کی اپیل کی ہے" بیزارصاحب اپنےاصل روپ میں واپس لوٹ رہے تھے"سرجی لیکن چندہ کتنادیا ہے؟" یار چندہ تو میں نے کبھی چنداکو بھی نہیں دیاجوبنارہےہیں انکا نہیں پتہ کہ انہوں نے اپنی جیب خاص سے کتنادیاہے۔ہماراکام توصرف عوام کو پیغام دینا ہے۔چندہ کتناہوا، قرضہ کتنااترا؟ یہ تو بڑے لوگوں کے کام ہیں۔ اور تمہیں کیاتکلیف ہے؟تم توساڈےنال ہونا"۔پھرمیری طرف دیکھ کر غرائے"تم نے ابھی تک زبان نہیں کھولی۔کیوں نہیں دیتے ٹیکس؟""سائیں وطن کوجب بھی دیا ہے ہم لوگوں نے ہی دیاہے۔کیا قربانی، ٹیکس، صبرکاامتحان ، قرض اتارنے سے لےکہ سیلاب زدگان،زلزلہ زدگان،آئی ڈی پیز کی بحالی کےلئے موجود "وزیراعظم کےخصوصی فنڈ" میں چندہ، انتخابات اورریفرنڈم میں جبرا ڈالےگئے ووٹ، انقلاب اورتبدیلی کےنام پہ منعقد دھرنا، ماچس کی ڈبیا پہ سیلز ٹیکس،نہ بننےوالےڈیموں کاڈیویلپمنٹ ٹیکس، سائیں ہمارے پاس تو اب دینے کوصرف کھال اور یایہ جان ناتواں بچی ہیں جو آپ کے تو کسی کام کی نہیں۔ اور گستاخی معاف یہ باتوں پہ اور آکسیجن پہ ٹیکس لگانے والےخودکتناٹیکس دیتے ہیں؟ پچھلےسال کےذاتی گوشوارے تو ذرا ہمیں دکھائیں"۔مجھے بھی بولنا پڑا کیونکہ مسٹرجاراکی تیزنگاہیں مجھےگھوررہی تھیں اور مزیدتپھڑکھانےکی تاب نہیں تھی۔"سرجی یہ بندہ کمیونسٹ اورپڑوسی ملک کاایجنٹ لگتاہے۔آپ میرےحوالےکردیں یہ سب کچھ فرفربک دےگا"۔انہوں نےاپنےحاکم بالا سے عرض کی۔"سائیں یہاں تورواج یہی ہے کہ سارے مہاجر،پنجابی،پٹھان،بلوچی،سندھی ہیں پاکستانی کوئی نہیں۔پہلےبنگالیوں کی باری تھی اب توغدار،ملک دشمن اورپرائےایجنٹ بکثرت ہیں۔اپنےایجنٹ توصرف اسٹیٹ ایجنٹ اورکمیشن ایجنٹ ہیں۔عام آدمی توہرجگہ ہے لیکن صرف قربانی اورقومی فریضہ کی ادائیگی کےوقت نظرآتاہے۔ باقی دنوں میں وہ پیرسائیں، منسٹرصاحب،سپیکرصاحب،صاحبان کےبندوں کےجھنڈ میں دکھائی نہیں دیتا۔اورآخری بات کہ اب ہمیں آٹےدال اور سبزی کی قیمت بڑھنے سےبھی فرق نہیں پڑتابلکہ کسی بھی حکومت اورکسی بات سے بھی نہیں پڑتا۔اب فرق پڑےگاتوآپ صاحبان کو پڑےگااور آپ کےبندوں کوپڑےگا۔کیونکہ اب کےآپ کی باری ہے۔خدا کےبندے تواب خداکےپاس چلے۔"
خدا کےبندے توہیں ہزاروں بنوں میں پھرتےہیں مارےمارے

میں اس کابندہ بنوںگا جس کو، خداکےبندوں سےپیار ہوگا

Monday, November 30, 2015

دھرتی کا دکھ

دھرتی کا دکھ
کل جب آپ اخبار پڑھیں گے تو یہ خبر بھی آپ کی نظر سے گذرے گی " ایک اور ڈاکٹر ٹارگٹ کلنگ کا شکار"۔ آپ یقینا سوچیں گے کہ اس میں ایسی کونسی خاص بات ہے؟ روزانہ کتنے ہی لوگ مملکت خداداد میں " نامعلوم " افراد کی گولی کا نشانہ بنتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر یعقوب پر کیا موقوف۔ اور ڈاکٹر کمیونٹی تو بقول عدالت عالیہ " معاشرے کا سب سے ظالم طبقہ" ہے۔ یہ خبر خاص ہے تو صرف متوفی کے پسماندگان کےلئے کیونکہ وہ اس سانحہ کے براہ راست متاثرین میں شامل ہیں۔ یا ان کے احباب کےلئے جو ڈاکٹر صاحب سے ذاتی طور پر واقفیت رکھتے ہیں۔ ہماری عوام تو خواص کے رنگ میں اسطرح رنگ چکی ہے کہ اب قحط پہ کیک کھانے کا مشورہ دیتی ہے۔ ہماری ترجیحات اب طلاقوں، سکینڈلز، نت نئے سیاسی بیانوں کی براہ راست سماعت، چیختے چنگھاڑتے ٹی وی میزبانوں کی  داستان امیر حمزہ  اور انتخابات کے ایک لامتناہی سلسلہ تک محدود ہیں۔سڑکوں پر بلکتی ہوئی عوام، صحراؤں میں بھوک اور بیماری کا شکار بچے، زلزلہ زدہ علاقوں کے سردی سے ٹھٹرتے بوڑھے اور امدادی قطاروں میں لگی ہوئی خواتین ہماری نظروں سے اوجھل ہیں کیونکہ نہ تو ان کی تصاویر اور کوریج پر ہمارے فالورز میں اضافہ ہونے کا امکان ہے اور نہ ہی ہماری ریٹنگ بڑھتی ہے۔ الٹا قنوطیت میں اور بے بسی کے احساس   میں اضافہ ہوتا ہے (اگر کسی کو احساس ہے تو)۔ ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اجل سے کس کو رستگاری ہے آج ہم تو کل تمہاری باری ہے۔ہمیں کوئی احساس نہیں کہ بنک کی میز پہ بیٹھا ہوا کیشئیر، ہوٹل کا کاؤنٹر مین یا ہمارا بیگ اٹھانے والا بیل بوائے، چوک میں کھڑا ہوا ٹریفک کانسٹیبل، ہمیں صبح سویرے اخبار اور دودھ پہنچانے والا آدمی ہماری زندگی کے معمول میں کتنے دخیل ہیں۔چوری کی ایف آئی آر درج کرنے والا محرر، آپکے محلے کا ڈاکیہ ،حفاظتی  ٹیکے دینے والے ویکسینیٹر،سرکاری ہسپتال کے شعبہ حادثات میں آپکے بیمار کو طبی امداد دینے والا ڈاکٹر اور طبی عملہ، آپکی حفاظت کرنے والی پولیس، اور آپ کے بچوں کو قرآن پڑھانے والےقاری صاحب ہمیشہ بے نام رہتے ہیں۔اگر ان کاموں کی انجام دہی میں یہ لوگ کوتاہی کریں تو ہمیں لازمی شکایت ہوتی ہے کہ دودھ والا ملاؤٹ کرتا ہے، اخبار اور خط وقت پہ نہیں ملتے، ڈاکٹر مریض پہ توجہ نہیں دیتے، تھانے والے خوار کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی غیر موجودگی بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کبھی آپ نے اپنے گھر کے چوراہے میں موجود ٹریفک سپاہی کو مس کیا ہے؟ تو نہ سہی اور سہی۔ زندگی تو رکتی نہیں لیکن جب کبھی اپنے گھر کی بات آتی ہے تو پھر دل کو دھچکا لگتا ہے۔ اس وقت اپنوں کے بچھڑنے کا دکھ اٹھتا ہے۔ڈاکٹر یعقوب آپ یقینا اپنے سارے پیاروں کو یاد آئیں گے۔ کیا ہوا کہ آپ اس آج کل کی مادہ پرست زندگی کے میعار کے مطابق بڑے آدمی نہیں کہ یہاں بڑے آدمی بڑے کام سے نہیں بنتے۔نہ یہ کہ آپ کے نام پہ ہسپتال کا نام رکھا جائے، یادگار شہدا میں آپ کی تصویر ہو۔ کوئی نہیں روتا عمر بھر۔ کچھ دن تذکرہ ہوتا  ہے کہ قاتلوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا اور پھر ہم لوگ بھول جاتےہیں۔ ہمیشہ بھول جاتے ہیں جس طرح ڈاکٹر یارمحمد کو بھلادیا ہے۔ اس خودفراموشی کی فہرست میں آپ اکیلے نہیں۔ کل کلاں کو اس میں ڈاکٹر  XYZکا نام بھی ہوگا کیونکہ عوام اور اس کے خدمت گزاروں کی حفاظت ہماری ترجیح نہیں۔ اور ہمارے محافظ تو خود بغیر محافظ کے قدم رکھنے کے روادار نہیں۔ ضلع کے محافظ اعلٰی منتطم اعلٰی سے ملاقات کےلئے تشریف لےجاتے ہوئے ایلیٹ فورس کا دستہ اور سڑک کی بندش لازم سمجھتے ہیں حالانکہ دونوں کے دفاتر کے مابین صرف سڑک حدفاصل ہے۔ایسے میں اپنی حفاظت کی صرف دعا کی جاسکتی ہے کہ دیس میں کتے کھلے پھرتے ہیں لیکن پتھروں کو گاڑ کہ رکھا ہوا ہے۔احتجاج ہڑتال اور مظاھرے اپنے دل کی غبار نکالنے کا وسیلہ تو بن سکتے ہیں لیکن اپنے مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں کوئی مدد نہیں دے سکتے۔جمہوریت بہترین انتقام ہے لیکن کون اپنے آپ سے انتقام لے؟ظلم کرنے والے تو اسی سرزمین کے فرزندان ہیں جن کے بچوں کے علاج و بہتری صحت کےلئے آپ نے اپنی زندگی قربان کر دی۔ آپ کے سارے ساتھی آپ کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ جب بھی امراض کے انسداد وروک تھام کے بارے میں کوئی بات ہوگی تو آپ کی جدائی کا زخم ہرا ہوگا۔ اللہ کرے کہ سوہنی دھرتی ہمیشہ بیماریوں سے محفوظ رہے اور انشااللہ ایک دن پولیو سمیت تمام امراض کا خاتمہ ہوگا ایک دن یہاں کے نادانوں کو بھی  عقل نصیب ہوگی لیکن شاید تب تک بہت سے اور ڈاکٹر یعقوب دھرتی کے اندر پرسکون نیند سو رہے ہوں گے۔
محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے        تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے 

Sunday, November 29, 2015

مونچھ تیرے لیئے مظہر الفت ہی سہی

مونچھیں ہوں تو نتھو لال جیسی ورنہ نہ ہوں
مونچھ تیرے لیئے مظہر الفت ہی سہی

وینزویلا کے صدر کا بیان آیا ہے جس میں وہ کہتے ہیں "اگر اپنا وعدہ پورا نہ کر سکا تو مونچھیں کٹوا دوں گا تا کہ عوام کو پتہ چل سکے کہ صدر اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہا ہے"۔     
ماشااللہ کیا بات کی ہے اگر صدر صاحب ہمارے وطن میں ہوتے اور وطن عزیز اپنی موجودہ ڈگر پر چل رہا ہو تو ذرا تصور کیجیے کہ آنے والے انتخابات کے دنوں میں ہمارے موجودہ برسر اقتدار راہنما اپنی ہیئت کذائی میں کسی بدھ بھکشو سے مماثلت رکھتے۔ کہ نہ تو منہ پہ مونچھ اور اچھے خاصے با شرع نورانی داڑھی والے بھی ٹنڈ منڈ دکھائی دیں۔یا حسب روایت فرمایا جائے گا کہ وہ سب تو صرف ایک وعدہ تھا اور وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو سکے۔مونچھ تیرے لیئے مظہر الفت ہی سہی     تجھ کو اس نشانی رنگیں سے عقیدت ہی سہی    میرے محبوب کچھ اور مانگا کر مجھ سے  اگر یہی شرط رہی وصل لیلٰی تو   ہم باز آئے محبت سے اٹھا لو پاندان اپنا  وغیرہ وغیرہ۔
 دعوے تو  انتخابی عمل کا حصہ ہیں اور بقول کسے  بڑھکیں، جھوٹے وعدے، اپنی فرشتہ صفتی اور مخالف کا مجسم شیطان ہونے کا دعوہ اور بہت ساری انہونیوں کے ثبوت ، بند فائلوں، اور خفیہ سازشوں کے اسرار کا ذکر یہ سب تو جمہوریت کا حسن ہے۔اگر آپ کی جمہوریت اتنی ہی بے ڈھنگی، بھدی، اور غیر پائیدار ہے کہ جھوٹ کی لاٹھی کے بغیر کھڑی بھی نہ ہو سکے تو اس جمہوریت کے کارٹون کا ہماری قوم اور ہمارے وطن کا کیا فائدہ؟
جب ہم کبھی سفید عمامہ جبہ اور کتاب میں تو کبھی ڈنڈے میں اپنی فلاح تلاش کرتے ہیں  ہمیں کہا جاتا ہے لہ یہ بڑی  بڑی عمارتیں عوام کی ہیں اور جب سلطانی جمہور کا زمانہ آیئگا تو ان میں علم کے متلاشی اپنی علم کی پیاس بجھایا کریں گے۔ سڑکوں پہ گھوں گھوں کرتے سائرن صرف ایمبولینسوں کے ہوں گے ۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیئں گےاور خلق خدا راج کرے گی۔لیکن یہ سب 35 پنکچروں کی تشریح کی طرح سیاسی بیان قرار پائے گا۔ ایک اور انتخاب آئےگا اور پھر وہی دشت اور مجنوں کا چاک گریباں ہوگا۔

پچھلے زمانوں کے مقابلہ میں ہمارے یہاں جھوٹ اور وہ بھی دھڑلے سے بلا جھجک بولنے کا رجحان اور تناسب بہت زیادہ بڑھ رہا ہے۔ کسی بندے سے یہ پوچھا گیا کہ اگر سارے سچے سفید براق اور سارے جھوٹے سیاہ  ہو جائیں تو آپ کا رنگ کیا ہوگا؟ انہوں نے بلا توقف جواب دیا "دھاری دار"۔ لیکن جناب اب تو بش ڈاکٹرائین کے بعد اس دو رنگی کی بھی گنجائش نہیں رہی کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے دشمن کے ساتھ۔ورنہ آپ کو پتھر کے دور میں بھیج دیا جائیےگا اگر آج آپ کو اس طرح کی کال آدھی رات کو آئے تو بلا توقف فرمائیے " آپ کو اس معاملہ میں تکلیف کرنےکی ضرورت بالکل نہیں، یہ ہماری قوم اور ہمارے حکمرانوں کا "ذاتی معاملہ" ہے اور ماشااللہ وہ بڑی تندہی سے اپنے کام کو سرانجام دینے میں لگے ہوئے ہیں"۔ہماری دوراندیش حکومت تو اب اس زمانے کی مروج و معروف  ذرائع نقل و حمل کی افزائش کا بندوبست ہمارے دوست ملک کے سرمایہ کاروں کی مدد سے کر رہی ہے۔ ہم تو صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ ہی ہمار ا 

اہتمام خر نوازی

مجبوری ہے بھائی۔ اٹک پار جان کا خطرہ ہے۔


اہتمام خر نوازی
خبریں  دراصل دو ہیں اور کسی گھریلو معاملہ یعنی کہ "قطعی ذاتی معاملہ" کی طرح گھسی پھٹی نہیں بلکہ تاذہ بہ تازہ وارد بہ در دہن اسپ راوی ہیں۔ پہلی خبریہ ہے کہ ماشااللہ برادرکلاں (صوبہ پنجاب) نے مملکتہائے چین و ترکی کے ساتھ 150 سے ذائد معاہدوں پر دستخط کئے ہیں جن میں توانائی، انفراسٹرکچر، صنعت، کان کنی اور دیگر کئی شعبے ہیں۔
دوسری خبر پرانی ہے کہ کل  برادر خورد (صوبہ پختونخوا) کے وزیراعلٰی سے چینی سرمایہکاروں کا ایک وفد ملا جس نے یہاں پر گدھوں کی افزائش کے فارم کھولنے کےسلسلہ میں اپنی دلچسپی ظاہر کی۔ اب ان کو کون بتلائے کہ ہمارے یہاں تو کب سے یہ فارم بہت سے قومی اداروں کے نام سے قائم ہیں اور اب تو ماشااللہ ہمارے گد ھوں  کی تیسری نسل برآمد و  دوبارہ درآمد ہو کر اکھاڑے میں اترنے کےلئے تیار ہے بلکہ اتر بھی چکی۔  استغفراللہ یہ میں کہہ بیٹھا کہ فی زمانہ عزت سادات کی تو کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ ملک ہائے مااست میں عزت دار کہلانے والے افراد صرف گنےچنےاداروں کے ہیں۔ عام آدمی، اسلامی شعائرواکابر اور قومی رہنماؤں کو آپ جو مرضی کہہ ڈالیں لیکن خبردار آپ کسی بڑے کے بارے میں کچھ کہنے کا سوچ بھی نہیں سکتے کہ قوانین  عوام کےلئے اور ان پر عملدرآمد نافذ کرنے والوں کی مرضی پر موقوف ہے۔سو احتیاط لازم ہے
مرزا نوبت آج کل فارغ ہیں اس معاملہ پر معترض ہیں  "یعنی کہ نوبت اب یہاں تک پہنچی کہ ہمارے دوست اب ہمیں گدھے پالنے کا مشورہ دے رہےہیں "تجویز اتنی بری تو نہیں کہ اسکا برا منایا جائے۔  پالنے کے معاملہ میں باوجود اس حقیقت کے کہ ہماری جمہوریت ابھی تک پالنے میں ہے لیکن ہمارے مبینہ راہنما کتے پالتے ہیں، جاگیردار ڈاکو اور خوانین بدمعاش پالتے ہیں، حکومت اپنے آپ کو پالنے کے لئے  قرض لیتی  ہے اورکارپوریشن پال کے بیچتی ہے جبکہ عوام اس قرض کا روگ پالتے ہیں۔ اس سے بہتر کوئی روزگار نہیں اور چونکہ دوستوں کی نظر میں ہم لوگ کسی اور کام جوگے نہیں کہ "پڑھا لکھا پنجاب "تحریک تو صرف اٹک پار تک اپنا چمتکار دکھا سکی اور ہمارا دیرینہ مطالبہ تھا کہ شاہراہ ترقی یعنی کہ پاک چین اقتصادی راہ داری میں ہمیں حصہ ملے تو ہمارے بھا ئیوں نے ابھی سے اس راہ پر ہماری استطاعت کے مطابق ہماری سواری کا بندوبست کرنے پر غوروخوض شروع کر دیا اور ہمیں مشورہ دیا کہ بھاڑ جونکنے سے  تو بہتر یہی کہ باہمی فلاح کا یہ کام کر لیا جائے  بلکہ اپنے بندہ  مزدور جوساعت بہ ساعت رہنمائے وقت کے آرام میں  اپنی مزدوری کی عدم ادائیگی کا غلغلہ بلند کر کے  خلل انداز ہوتے ہیں ، ان کو اس کام سے لگادیا جائے تاکہ ان کی سمع خراشی سے محفوظ رہا جاسکے۔ ہماری قوم تو تقریبا ہر معاملہ میں درآمد شدہ مال پر یقین رکھتی ہے خواہ وہ بیوی ہو، وزیراعظم ہو یاہسپتالوں کے منتظم اعلٰی  ہمارے مزاج کو تو امپورٹڈ کا لیبل بھاتا ہے تو کیا ایسا ہوگا کہ ہم برآمد کےلئے تو اپنےدیسی گدھے پالیں اور سواری کے لئے امریکی گدھے؟شاید کہ اس سے امریکیوں سے ہمارے تعلق دیرینہ میں گرم جوشی آئے .
                ایک اور وجہ شایداس کی یہ بھی  ہو کہ ان کو کسی نے "خر گے تبرگے" کا تذکرہ کیا ہو " اے اللہ بس ایک گدھا اور ایک کلہاڑا دے دے باقی میں جانوں اور میرا کام"گدھے توہمارے ہاں دو ٹانگوں والے بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے بکثرت دھرنوں، مظاہروں، ہنگاموں اور ٹریفک حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کچھ پرائی جنگ کا ایندھن بن جاتےہیں  جبکہ" تعلیم آفتہ" کو دساور ملک بدر کیا جاتا ہے عمومی بہانہ تعلیم یا روزگار کا ہوتا ہے۔ لیکن یہ حضرات گھوم پھر کر دوبارہ یہاں وارد ہو جاتے ہیں سچ ہے کہ " جتھے دی کھوتی  اتے آن کھلوتی" ۔
یا شاید ہمارے دوستوں کے ذہن میں یہ بات ہو کہ ہماری قوم گدھوں کی تربیت اور ان کے انتخاب میں مہارت رکھتی ہے۔ لیکن  تعلیم و تربیت ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ " کعبہ کی بزرگی میں کسی شک کی گنجائش نہیں لیکن گدھے کو طوافوں سے حاجی نہیں بنایا جا سکتا"
 یہ واقعہ  برطانوی پارلیمان کی تاریخ میں رقم ہے کہ ایک رکن نے کہا " اس ایوان کے آدھے ارکان گدھے ہیں" جب اس جملہ پر نقطہ اعتراض اٹھایا  گیا تو وہی حضرت گویا ہوئے " میں اپنے بیان  میں ترمیم کرنا چاہوں گا۔ اس ایوان کے آدھے اراکین یقینا گدھے نہیں ہیں"۔لوگ تویہ بھی  کہتے ہیں کہ گدھا جس راستے پر ایک دفعہ چلا جائے تو یہ اس کی یادداشت کےلیے کافی ہے جیسا ہمارے ہاں ایک دفعہ کا انتخا ب اگلی دفعہ کےلیے پارلیمینٹ جانےکی گارنٹی ہے ۔
خرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے            دیکھنا اب زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے